Only 1 Minute.
Today the topic of article is as following.
Original Article is by Dimitry Kozyliov for Radio Voice of Russia .
The Original Translation in Urdu is done by Mojahid Mirza Sahib.
I do Apologise for not mentioning there names.
سولھویں صدی میں روس کے حاکم ایوان غضبناک کی قیمتی قدیم قلمی کتب کے مجموعے کے پر اسراس طریقے سے غائب ہو جانے کا مسئلہ آج بھی دانشوروں اور خزانوں کے متلاشی افراد کو چیین نہیں لینے دیتا۔ کئی صدیوں سے اس کتب خانے کی تلاش کا ناکام عمل جاری ہے۔ ایوان غضبناک اس کتب خانے کے اولیں مالک نہیں تھے۔ یہ کتب بازنظینی شہنشاہوں نے ہمارے عہد کے آغاز سے پہلے جمع کرنا شروع کی تھیں، جن کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں جسے آج استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے ، دنیا بھر سے باقدر ترین کتب لائی جاتی تھیں، مثال کے طور پر سکندریہ، مصر کے معروف ترین کتب خانے سے۔ 1453 میں قسطنطنیہ ترکوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ جلتے ہوئے شہر میں کتب خانے کو معجزانہ طور پر بچا لیا گیا تھا۔ انّیس برس بعد آخری بازنطینی شہزادی صوفیہ ایوان سوم کے عقد میں آئی تھی، جو ایوان غضبناک کے دادا تھے۔ دلہن کے ساتھ سامان سے لدے ہوئے چھکڑوں کے چھکڑے آئے تھے۔ اس جہیز کا سب سے بڑا خزانہ، شہنشاہوں کا کتب خانہ، ماسکو کے زاروں کی ذاتی جائیداد بن گیا تھا۔ ایوان غضبناک کو تاریخ میں ایک ظالم بادشاہ کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ اپنے دور کے ایک بہت پڑھے لکھے شخص تھے، ان کا حافظہ بلا کا تھا اور وہ بہت سریع العقل تھے۔ زار موصوف کو کتابوں سے پیار تھا، وہ اپنے کتب خانہ میں اضافہ کرنے کی خاطر کتاب کا انتخاب بنفس نفیس کیا کرتے تھے۔ ان کی ہزاروں گراں مایہ کتابیں لوہے کے صندوقوں میں محفوظ رکھی جاتی تھیں۔ کتب خانے میں بہت ہی چنیدہ شخص کو داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔ مستزاد یہ کہ اپنی عمر کے آخری برسوں میں غضبناک زار اس قدر سنکی ہو چکے تھے کہ انہین کسی پہ بھی اعتبار نہیں رہا تھا۔ 1584 میں زار ایوان غضبناک کی ناگہانی موت کے بعد کتب خانہ غائب ہو گیا تھا۔
آثار قدیمہ کے ماہر اگناتی ستیلیتسکی کو زار کے کتب خانے کے متلاشیوں کی باتوں پہ شک تھا۔ انہوں نے تو یہاں تک دعوٰی کیا تھا کہ کہ وہ 1914 میں اس پراسرار فہرست کو ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہو چکے تھے۔۔۔۔۔ فہرست ایک بار پھر پراسرار طور پر کھو گئی تھی۔ انہوں نے بڑے طریقے سے اور تسلسل کے ساتھ ایون غضبناک کی مختلف رہائش گاہوں یعنی وولوگدا، الیکساندروو اور ظاہر ہے ماسکو کے کریملن کو کھنگال مارا تھا۔ 1933 میں اس ماہر آثار قدیمہ نے خود جوزف سٹالن سے مدد کے لیے رجوع کیا تھا۔ کھدائی کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں لیکن تمام تر کوششین ناکام رہی تھی۔ پھر زیادہ دیر کی بات نہیں ہے، 1995 میں ماسکو کے مئیر نے بھی کتب خانہ تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ چار سال کی عرق ریز محنت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔
کیا اس تلاش کا کوئی جواز باقی رہا ہے؟ ممکن ہے قلمی کتابیں دیمک کھا گئی ہو، ممکن ہے جل چکی ہوں یا پھر لٹیروں کے ہاتھ لگ چکی ہوں۔ ایک زیادہ درست تصور اور بھی ہے کہ زار کا کتب خانہ مل چکا ہے۔ سارا تو نہیں لیکن اس کا ایک چھوٹا سا حصہ۔ روسی سٹیٹ لائیبریری کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس لائبریری میں چھ لاکھ مخطوطات ہیں، جن میں سے ساٹھ ہزار قدیم مخطوطات ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں کچھ ایوان غضبناک کی کتابیں بھی ہوں۔
پھر کیا کیا جائے؟ کیا تلاش چھوڑ دی جائے یا زیادہ شدّومد سے ڈھوندا جائے، تاکہ لوگوں کو اس گراں قدر مخطوطہ جات کا خزانہ لوٹایا جا سکے؟ بہر حال جو بھی ہو، اس داستانی کتب خانے کے بارے میں کوئی حتمی بات کیے جانا تاحال قبل ازوقت ہے۔
اس کتب خانے کو کس کس نے تلاش نہیں کیا۔ اٹھارویں صدی کے اوائل کے کسی کونان اوسیپوو کی تحریر محفوظ ہے۔ اس کے دوست نے مرنے سے پہلے اسے بتایا تھا کہ صندوق کریملن کی زیر زمیں راہداریوں کے ایک خفیہ کمرے میں رکھے گئے ہیں۔ متجسس اوسیپوو نے خفیہ کمرے کو تلاش کرنے کا عزم کیا تھا، لیکن زیر زمین داخل ہونے کا جو راستہ اسے بتایا گیا تھا، وہ مسدود ہو چکا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت سے مدد کی درخواست کے لیے رجوع کرنا پڑا تھا۔ زیر زمین راہداریاں تو تھیں لیکن کمرہ کوئی نہ مل سکا تھا۔
1822 میں پروفیسر دابیلوو نے ایک مضمون میں ایک ایسی دستاویز کا ذکر کیا تھا، جس میں ایوان غضبناک کے کتب خانے میں شامل کتابوں کی فہرست درج تھی۔ اس فہرست میں دانشوروں نے دلچسپی لی تو معلوم ہوا کہ اس میں قدیم یونان اور روم کی غیر معروف کتابوں کا تذکرہ ہے جو ارستوفینس، سویتونیس،تاسیتوس، ورجل اور سیسیرو نے لکھی تھیں۔ اس طرح کی کتابوں کی عالمی ورثے میں بہت زیادہ قدر ہوتی لیکن معلوم یہ ہوا کہ دابیلوو کے پاس اس فہرست کی نقل تھی۔ اصل فہرست ایسے غائب ہوئی کہ سراغ تک نہ مل پایا۔ ہے ناں راز کی بات؟ دابیلوو کوئی وضاحت تک نہ کر پائے تھے اور اپنے اس افشائے راز کے فورآ" بعد غیر متوقع طور پہ اس جہان سے سدھار گئے تھے۔ اتنے دانا اور تجربہ کار پروفیسر سے اتنی اہم دستاویز بھلا کیسے کھو سکتی تھی؟
آثار قدیمہ کے ماہر اگناتی ستیلیتسکی کو زار کے کتب خانے کے متلاشیوں کی باتوں پہ شک تھا۔ انہوں نے تو یہاں تک دعوٰی کیا تھا کہ کہ وہ 1914 میں اس پراسرار فہرست کو ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہو چکے تھے۔۔۔۔۔ فہرست ایک بار پھر پراسرار طور پر کھو گئی تھی۔ انہوں نے بڑے طریقے سے اور تسلسل کے ساتھ ایون غضبناک کی مختلف رہائش گاہوں یعنی وولوگدا، الیکساندروو اور ظاہر ہے ماسکو کے کریملن کو کھنگال مارا تھا۔ 1933 میں اس ماہر آثار قدیمہ نے خود جوزف سٹالن سے مدد کے لیے رجوع کیا تھا۔ کھدائی کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں لیکن تمام تر کوششین ناکام رہی تھی۔ پھر زیادہ دیر کی بات نہیں ہے، 1995 میں ماسکو کے مئیر نے بھی کتب خانہ تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ چار سال کی عرق ریز محنت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔
کیا اس تلاش کا کوئی جواز باقی رہا ہے؟ ممکن ہے قلمی کتابیں دیمک کھا گئی ہو، ممکن ہے جل چکی ہوں یا پھر لٹیروں کے ہاتھ لگ چکی ہوں۔ ایک زیادہ درست تصور اور بھی ہے کہ زار کا کتب خانہ مل چکا ہے۔ سارا تو نہیں لیکن اس کا ایک چھوٹا سا حصہ۔ روسی سٹیٹ لائیبریری کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس لائبریری میں چھ لاکھ مخطوطات ہیں، جن میں سے ساٹھ ہزار قدیم مخطوطات ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں کچھ ایوان غضبناک کی کتابیں بھی ہوں۔
پھر کیا کیا جائے؟ کیا تلاش چھوڑ دی جائے یا زیادہ شدّومد سے ڈھوندا جائے، تاکہ لوگوں کو اس گراں قدر مخطوطہ جات کا خزانہ لوٹایا جا سکے؟ بہر حال جو بھی ہو، اس داستانی کتب خانے کے بارے میں کوئی حتمی بات کیے جانا تاحال قبل ازوقت ہے۔
Regard.
Furqan Ali Khan.
15.4.2013
Today the topic of article is as following.
تاریخ روس کے راز: ایوان غضبناک کا کتب خانہ
This is not my Article.Original Article is by Dimitry Kozyliov for Radio Voice of Russia .
The Original Translation in Urdu is done by Mojahid Mirza Sahib.
I do Apologise for not mentioning there names.
سولھویں صدی میں روس کے حاکم ایوان غضبناک کی قیمتی قدیم قلمی کتب کے مجموعے کے پر اسراس طریقے سے غائب ہو جانے کا مسئلہ آج بھی دانشوروں اور خزانوں کے متلاشی افراد کو چیین نہیں لینے دیتا۔ کئی صدیوں سے اس کتب خانے کی تلاش کا ناکام عمل جاری ہے۔ ایوان غضبناک اس کتب خانے کے اولیں مالک نہیں تھے۔ یہ کتب بازنظینی شہنشاہوں نے ہمارے عہد کے آغاز سے پہلے جمع کرنا شروع کی تھیں، جن کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں جسے آج استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے ، دنیا بھر سے باقدر ترین کتب لائی جاتی تھیں، مثال کے طور پر سکندریہ، مصر کے معروف ترین کتب خانے سے۔ 1453 میں قسطنطنیہ ترکوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ جلتے ہوئے شہر میں کتب خانے کو معجزانہ طور پر بچا لیا گیا تھا۔ انّیس برس بعد آخری بازنطینی شہزادی صوفیہ ایوان سوم کے عقد میں آئی تھی، جو ایوان غضبناک کے دادا تھے۔ دلہن کے ساتھ سامان سے لدے ہوئے چھکڑوں کے چھکڑے آئے تھے۔ اس جہیز کا سب سے بڑا خزانہ، شہنشاہوں کا کتب خانہ، ماسکو کے زاروں کی ذاتی جائیداد بن گیا تھا۔ ایوان غضبناک کو تاریخ میں ایک ظالم بادشاہ کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ اپنے دور کے ایک بہت پڑھے لکھے شخص تھے، ان کا حافظہ بلا کا تھا اور وہ بہت سریع العقل تھے۔ زار موصوف کو کتابوں سے پیار تھا، وہ اپنے کتب خانہ میں اضافہ کرنے کی خاطر کتاب کا انتخاب بنفس نفیس کیا کرتے تھے۔ ان کی ہزاروں گراں مایہ کتابیں لوہے کے صندوقوں میں محفوظ رکھی جاتی تھیں۔ کتب خانے میں بہت ہی چنیدہ شخص کو داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔ مستزاد یہ کہ اپنی عمر کے آخری برسوں میں غضبناک زار اس قدر سنکی ہو چکے تھے کہ انہین کسی پہ بھی اعتبار نہیں رہا تھا۔ 1584 میں زار ایوان غضبناک کی ناگہانی موت کے بعد کتب خانہ غائب ہو گیا تھا۔
اس کتب خانے کو کس کس نے تلاش نہیں کیا۔ اٹھارویں صدی کے اوائل کے کسی کونان اوسیپوو کی تحریر محفوظ ہے۔ اس کے دوست نے مرنے سے پہلے اسے بتایا تھا کہ صندوق کریملن کی زیر زمیں راہداریوں کے ایک خفیہ کمرے میں رکھے گئے ہیں۔ متجسس اوسیپوو نے خفیہ کمرے کو تلاش کرنے کا عزم کیا تھا، لیکن زیر زمین داخل ہونے کا جو راستہ اسے بتایا گیا تھا، وہ مسدود ہو چکا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت سے مدد کی درخواست کے لیے رجوع کرنا پڑا تھا۔ زیر زمین راہداریاں تو تھیں لیکن کمرہ کوئی نہ مل سکا تھا۔
1822 میں پروفیسر دابیلوو نے ایک مضمون میں ایک ایسی دستاویز کا ذکر کیا تھا، جس میں ایوان غضبناک کے کتب خانے میں شامل کتابوں کی فہرست درج تھی۔ اس فہرست میں دانشوروں نے دلچسپی لی تو معلوم ہوا کہ اس میں قدیم یونان اور روم کی غیر معروف کتابوں کا تذکرہ ہے جو ارستوفینس، سویتونیس،تاسیتوس، ورجل اور سیسیرو نے لکھی تھیں۔ اس طرح کی کتابوں کی عالمی ورثے میں بہت زیادہ قدر ہوتی لیکن معلوم یہ ہوا کہ دابیلوو کے پاس اس فہرست کی نقل تھی۔ اصل فہرست ایسے غائب ہوئی کہ سراغ تک نہ مل پایا۔ ہے ناں راز کی بات؟ دابیلوو کوئی وضاحت تک نہ کر پائے تھے اور اپنے اس افشائے راز کے فورآ" بعد غیر متوقع طور پہ اس جہان سے سدھار گئے تھے۔ اتنے دانا اور تجربہ کار پروفیسر سے اتنی اہم دستاویز بھلا کیسے کھو سکتی تھی؟
آثار قدیمہ کے ماہر اگناتی ستیلیتسکی کو زار کے کتب خانے کے متلاشیوں کی باتوں پہ شک تھا۔ انہوں نے تو یہاں تک دعوٰی کیا تھا کہ کہ وہ 1914 میں اس پراسرار فہرست کو ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہو چکے تھے۔۔۔۔۔ فہرست ایک بار پھر پراسرار طور پر کھو گئی تھی۔ انہوں نے بڑے طریقے سے اور تسلسل کے ساتھ ایون غضبناک کی مختلف رہائش گاہوں یعنی وولوگدا، الیکساندروو اور ظاہر ہے ماسکو کے کریملن کو کھنگال مارا تھا۔ 1933 میں اس ماہر آثار قدیمہ نے خود جوزف سٹالن سے مدد کے لیے رجوع کیا تھا۔ کھدائی کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں لیکن تمام تر کوششین ناکام رہی تھی۔ پھر زیادہ دیر کی بات نہیں ہے، 1995 میں ماسکو کے مئیر نے بھی کتب خانہ تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ چار سال کی عرق ریز محنت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔
کیا اس تلاش کا کوئی جواز باقی رہا ہے؟ ممکن ہے قلمی کتابیں دیمک کھا گئی ہو، ممکن ہے جل چکی ہوں یا پھر لٹیروں کے ہاتھ لگ چکی ہوں۔ ایک زیادہ درست تصور اور بھی ہے کہ زار کا کتب خانہ مل چکا ہے۔ سارا تو نہیں لیکن اس کا ایک چھوٹا سا حصہ۔ روسی سٹیٹ لائیبریری کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس لائبریری میں چھ لاکھ مخطوطات ہیں، جن میں سے ساٹھ ہزار قدیم مخطوطات ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں کچھ ایوان غضبناک کی کتابیں بھی ہوں۔
پھر کیا کیا جائے؟ کیا تلاش چھوڑ دی جائے یا زیادہ شدّومد سے ڈھوندا جائے، تاکہ لوگوں کو اس گراں قدر مخطوطہ جات کا خزانہ لوٹایا جا سکے؟ بہر حال جو بھی ہو، اس داستانی کتب خانے کے بارے میں کوئی حتمی بات کیے جانا تاحال قبل ازوقت ہے۔
اس کتب خانے کو کس کس نے تلاش نہیں کیا۔ اٹھارویں صدی کے اوائل کے کسی کونان اوسیپوو کی تحریر محفوظ ہے۔ اس کے دوست نے مرنے سے پہلے اسے بتایا تھا کہ صندوق کریملن کی زیر زمیں راہداریوں کے ایک خفیہ کمرے میں رکھے گئے ہیں۔ متجسس اوسیپوو نے خفیہ کمرے کو تلاش کرنے کا عزم کیا تھا، لیکن زیر زمین داخل ہونے کا جو راستہ اسے بتایا گیا تھا، وہ مسدود ہو چکا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت سے مدد کی درخواست کے لیے رجوع کرنا پڑا تھا۔ زیر زمین راہداریاں تو تھیں لیکن کمرہ کوئی نہ مل سکا تھا۔
1822 میں پروفیسر دابیلوو نے ایک مضمون میں ایک ایسی دستاویز کا ذکر کیا تھا، جس میں ایوان غضبناک کے کتب خانے میں شامل کتابوں کی فہرست درج تھی۔ اس فہرست میں دانشوروں نے دلچسپی لی تو معلوم ہوا کہ اس میں قدیم یونان اور روم کی غیر معروف کتابوں کا تذکرہ ہے جو ارستوفینس، سویتونیس،تاسیتوس، ورجل اور سیسیرو نے لکھی تھیں۔ اس طرح کی کتابوں کی عالمی ورثے میں بہت زیادہ قدر ہوتی لیکن معلوم یہ ہوا کہ دابیلوو کے پاس اس فہرست کی نقل تھی۔ اصل فہرست ایسے غائب ہوئی کہ سراغ تک نہ مل پایا۔ ہے ناں راز کی بات؟ دابیلوو کوئی وضاحت تک نہ کر پائے تھے اور اپنے اس افشائے راز کے فورآ" بعد غیر متوقع طور پہ اس جہان سے سدھار گئے تھے۔ اتنے دانا اور تجربہ کار پروفیسر سے اتنی اہم دستاویز بھلا کیسے کھو سکتی تھی؟
آثار قدیمہ کے ماہر اگناتی ستیلیتسکی کو زار کے کتب خانے کے متلاشیوں کی باتوں پہ شک تھا۔ انہوں نے تو یہاں تک دعوٰی کیا تھا کہ کہ وہ 1914 میں اس پراسرار فہرست کو ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہو چکے تھے۔۔۔۔۔ فہرست ایک بار پھر پراسرار طور پر کھو گئی تھی۔ انہوں نے بڑے طریقے سے اور تسلسل کے ساتھ ایون غضبناک کی مختلف رہائش گاہوں یعنی وولوگدا، الیکساندروو اور ظاہر ہے ماسکو کے کریملن کو کھنگال مارا تھا۔ 1933 میں اس ماہر آثار قدیمہ نے خود جوزف سٹالن سے مدد کے لیے رجوع کیا تھا۔ کھدائی کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں لیکن تمام تر کوششین ناکام رہی تھی۔ پھر زیادہ دیر کی بات نہیں ہے، 1995 میں ماسکو کے مئیر نے بھی کتب خانہ تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ چار سال کی عرق ریز محنت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔
کیا اس تلاش کا کوئی جواز باقی رہا ہے؟ ممکن ہے قلمی کتابیں دیمک کھا گئی ہو، ممکن ہے جل چکی ہوں یا پھر لٹیروں کے ہاتھ لگ چکی ہوں۔ ایک زیادہ درست تصور اور بھی ہے کہ زار کا کتب خانہ مل چکا ہے۔ سارا تو نہیں لیکن اس کا ایک چھوٹا سا حصہ۔ روسی سٹیٹ لائیبریری کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس لائبریری میں چھ لاکھ مخطوطات ہیں، جن میں سے ساٹھ ہزار قدیم مخطوطات ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں کچھ ایوان غضبناک کی کتابیں بھی ہوں۔
پھر کیا کیا جائے؟ کیا تلاش چھوڑ دی جائے یا زیادہ شدّومد سے ڈھوندا جائے، تاکہ لوگوں کو اس گراں قدر مخطوطہ جات کا خزانہ لوٹایا جا سکے؟ بہر حال جو بھی ہو، اس داستانی کتب خانے کے بارے میں کوئی حتمی بات کیے جانا تاحال قبل ازوقت ہے۔
Regard.
Furqan Ali Khan.
15.4.2013
No comments:
Post a Comment
thank you