Only 1 Minute.
Must read with patience and try to understand what want to say ?
ایک فورم پر گفتگو ھو رھی تھی کہ "
ہمیں طالبان کا پاکستان چاہئے ، یا قائد اعظم کا یا پھر الله اور الله کے رسول کا پاکستان ؟؟؟؟؟
وھاں میں نے یہ رائے دی ، آپ لوگ کیا کہتے ھیں ؟ آراء دیجیئے
یہ بات قطعی قابل قبول نہیں کہ کسی ایک مذھبی سوچ رکھنے والے گروہ ، جماعت یا فرقہ کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ اپنے فہم اسلام کو پاکستان میں نافذ کرے ۔ ایسا کرنے سے خدا نخواستہ یہ ملک ذیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکے گا یا پھر ایسی انارکی پھیلے گی کہ عام آدمی کا جینا محال ھو جائے گا ،( جو پہلے ھی دشوار ھے ) پہلے ھی وطن عزیز میں ( خاص طور پر انیس سو ستر کے بعد ) مختلف اندرونی قوتوں نے اپنے اپنے نظریات کی وہ دھما چوکڑی مچائی ھے کہ قائد اعظم جناح کا پاکستان ڈھونڈے نہیں ملتا ،
پہلے بھٹو اور پھر ضیالحق نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیئے مذہب کو استعمال کر نے کا انتہائی مکروہ کام کیا ، انہوں نے ایسے نظریات آئین کا حصہ بنا دئیے جن کا قائد اعظم کی سوچ سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا ، نصاب تعلیم بدل دئیے گئے ، ایسی افسانوی اور جھوٹی باتیں تاریخ کا حصہ بنا دی گئیں جنہیں پڑھ کے جو نسل پروان چڑھی اس میں شدت پسندی ، بنیاد پرستی اور سوپیریورٹی کمپلیکس پیدا ھو گیا ، حکومتی سر پرستی میں ایسا لٹریچر بھی کثرت سے لکھا گیا جس میں اپنےماضی کو انتہائی مبالغے اور جھوٹ سے کام لیتے ھوئے نوجوان نسل کو گمراہ کیا گیا ، نتیجتا" ایسے گروہ وجود میں آگئے جو اس احمقانہ سوچ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے لگے کہ وہ ساری دنیا سے افضل ھیں ، ملاں کے لیئے یہ حالات پسندیدہ ترین تھے یہ وہ طبقہ ھے جو تقسیم سے قبل پاکستان کو پلیتستان اور قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہتے تھے ، ( یہ باتیں ریکارڈ پر موجود ھیں ) اب یہی لوگ ملک کے وارث ٹھرے ، انہوں نے جہاد کے نام پر فساد فی الارض کو ھوا دی ، کیسا مضحکہ خیز تصور ھے کہ جہاد یہودیوں اور عیسائیوں کی حکومتوں ( امریکا و برطانیہ ) سے مل کے روس کے خلاف کیا گیا ، ملاں نے اس فساد کے دوران خوب پیسہ بنایا ، جو کہ ملاں کی زندگی کا اصل مقصد ھے ، ساتھ ھی چونکہ ھر مسلمان فرقہ کا ملاں دوسرے کو قطعی کافر سمجھتا ھے اس لیئے یہ فساد ملک کے اندر ایکدوسرے کے خلاف بھی ھوتا رھا ، لاتعداد لوگوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا ، جس میں کئی شاعر ، ادیب ، اساتذہ اور ڈاکٹرز بھی شامل ھیں ۔ حکومتیں سب کچھ دیکھتے ھوئے بھی نہ صرف ان عناصر کی طرف سے آنکھیں بند کیئے بیٹھی رھیں بلکہ مختلف گروھوں کی درپردہ مدد بھی کرتی رھیں ۔ اسی دوران فساد فی الارض کرنے والے گروھوں کو باقاعدہ حکومتی سر پرستی میں طالبان کی شکل میں منظم کیا گیا ۔ مقصد تو شاید افغانستان میں پاکستان نواز حکومت بنایا تھا مگر طاقت پکڑنے اور اپنے ابتدائی ھدف حاصل کرنے کے بعد یہ عفریت بے لگام ھو گیا اور نائن الیون کے بعد پاکستان پر ھی چڑھ دوڑا ، اس کے بعد اس گروہ نے پچھلے گیارہ سالوں میں اسلام کے نام پر پاکستان کو وہ نقصان پہنچایا جو دونوں ھندو پاک جنگوں میں بھی نہ پہنچا ھو گا ، کیا اب بھی اس سوال کی ضرورت ھے کہ کیسا پاکستان ھونا چاہیئے ، ؟؟
قائد اعظم نے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں وہ بنیادی اصول نہایت واشگاف الفاظ میں بیان کر دئیے تھے جن پر نئی ریاست قائم ھونا تھی ۔ اگر کوئی سمجھنے والا ھے تو اس کے لیئے جناح کی یہ تقریر حرفِ آخر ھونا چاہیئے ۔
پہلے اس تقریر کے کچھ حصے پیش کر رھا ھوں ، آخر پہ پوری تقریر ھے ، لنک کے ساتھ
I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.
Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.
I am sharing a link of that constitutional address.
http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/constituent_address_11aug1947.html
You can join me on my facebook also and give ur comment.
http://www.facebook.com/pages/DR-Furqan-Ali-Khan/251362514875967?ref=ts&fref=ts
Regard.
Furqan Ali Khan.
19.11.2012.
Must read with patience and try to understand what want to say ?
ایک فورم پر گفتگو ھو رھی تھی کہ "
ہمیں طالبان کا پاکستان چاہئے ، یا قائد اعظم کا یا پھر الله اور الله کے رسول کا پاکستان ؟؟؟؟؟
وھاں میں نے یہ رائے دی ، آپ لوگ کیا کہتے ھیں ؟ آراء دیجیئے
یہ بات قطعی قابل قبول نہیں کہ کسی ایک مذھبی سوچ رکھنے والے گروہ ، جماعت یا فرقہ کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ اپنے فہم اسلام کو پاکستان میں نافذ کرے ۔ ایسا کرنے سے خدا نخواستہ یہ ملک ذیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکے گا یا پھر ایسی انارکی پھیلے گی کہ عام آدمی کا جینا محال ھو جائے گا ،( جو پہلے ھی دشوار ھے ) پہلے ھی وطن عزیز میں ( خاص طور پر انیس سو ستر کے بعد ) مختلف اندرونی قوتوں نے اپنے اپنے نظریات کی وہ دھما چوکڑی مچائی ھے کہ قائد اعظم جناح کا پاکستان ڈھونڈے نہیں ملتا ،
پہلے بھٹو اور پھر ضیالحق نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیئے مذہب کو استعمال کر نے کا انتہائی مکروہ کام کیا ، انہوں نے ایسے نظریات آئین کا حصہ بنا دئیے جن کا قائد اعظم کی سوچ سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا ، نصاب تعلیم بدل دئیے گئے ، ایسی افسانوی اور جھوٹی باتیں تاریخ کا حصہ بنا دی گئیں جنہیں پڑھ کے جو نسل پروان چڑھی اس میں شدت پسندی ، بنیاد پرستی اور سوپیریورٹی کمپلیکس پیدا ھو گیا ، حکومتی سر پرستی میں ایسا لٹریچر بھی کثرت سے لکھا گیا جس میں اپنےماضی کو انتہائی مبالغے اور جھوٹ سے کام لیتے ھوئے نوجوان نسل کو گمراہ کیا گیا ، نتیجتا" ایسے گروہ وجود میں آگئے جو اس احمقانہ سوچ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے لگے کہ وہ ساری دنیا سے افضل ھیں ، ملاں کے لیئے یہ حالات پسندیدہ ترین تھے یہ وہ طبقہ ھے جو تقسیم سے قبل پاکستان کو پلیتستان اور قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہتے تھے ، ( یہ باتیں ریکارڈ پر موجود ھیں ) اب یہی لوگ ملک کے وارث ٹھرے ، انہوں نے جہاد کے نام پر فساد فی الارض کو ھوا دی ، کیسا مضحکہ خیز تصور ھے کہ جہاد یہودیوں اور عیسائیوں کی حکومتوں ( امریکا و برطانیہ ) سے مل کے روس کے خلاف کیا گیا ، ملاں نے اس فساد کے دوران خوب پیسہ بنایا ، جو کہ ملاں کی زندگی کا اصل مقصد ھے ، ساتھ ھی چونکہ ھر مسلمان فرقہ کا ملاں دوسرے کو قطعی کافر سمجھتا ھے اس لیئے یہ فساد ملک کے اندر ایکدوسرے کے خلاف بھی ھوتا رھا ، لاتعداد لوگوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا ، جس میں کئی شاعر ، ادیب ، اساتذہ اور ڈاکٹرز بھی شامل ھیں ۔ حکومتیں سب کچھ دیکھتے ھوئے بھی نہ صرف ان عناصر کی طرف سے آنکھیں بند کیئے بیٹھی رھیں بلکہ مختلف گروھوں کی درپردہ مدد بھی کرتی رھیں ۔ اسی دوران فساد فی الارض کرنے والے گروھوں کو باقاعدہ حکومتی سر پرستی میں طالبان کی شکل میں منظم کیا گیا ۔ مقصد تو شاید افغانستان میں پاکستان نواز حکومت بنایا تھا مگر طاقت پکڑنے اور اپنے ابتدائی ھدف حاصل کرنے کے بعد یہ عفریت بے لگام ھو گیا اور نائن الیون کے بعد پاکستان پر ھی چڑھ دوڑا ، اس کے بعد اس گروہ نے پچھلے گیارہ سالوں میں اسلام کے نام پر پاکستان کو وہ نقصان پہنچایا جو دونوں ھندو پاک جنگوں میں بھی نہ پہنچا ھو گا ، کیا اب بھی اس سوال کی ضرورت ھے کہ کیسا پاکستان ھونا چاہیئے ، ؟؟
قائد اعظم نے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں وہ بنیادی اصول نہایت واشگاف الفاظ میں بیان کر دئیے تھے جن پر نئی ریاست قائم ھونا تھی ۔ اگر کوئی سمجھنے والا ھے تو اس کے لیئے جناح کی یہ تقریر حرفِ آخر ھونا چاہیئے ۔
پہلے اس تقریر کے کچھ حصے پیش کر رھا ھوں ، آخر پہ پوری تقریر ھے ، لنک کے ساتھ
I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.
Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.
I am sharing a link of that constitutional address.
http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/constituent_address_11aug1947.html
You can join me on my facebook also and give ur comment.
http://www.facebook.com/pages/DR-Furqan-Ali-Khan/251362514875967?ref=ts&fref=ts
Regard.
Furqan Ali Khan.
19.11.2012.
No comments:
Post a Comment
thank you