show

1

Blogger Widgets

Sunday, February 3, 2013

148. ٹمبکٹو۔اک شہر تھا عالم میں انتخاب

Only 1 Minute.
Must read and Share it.

ٹمبکٹو۔اک شہر تھا عالم میں انتخاب


یہ سولہویں صدی عیسوی کا ایک شہر ہے۔اس کی ایک یونیورسٹی میں مختلف رنگ و نسل کے ہزاروں طلبا ریاضی ، طب ، فلکیات اور سائنسی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ عرب زباں کا ایسا دور دورہ ہے کہ عرب اہلِ زباں بھی شرما جائے۔ کتب خانوں میں لاکھوں کتا بیں موجود ہیں جن میں سے کئی قدیم اور نایاب ہیں ۔ پوری دنیا سے دینی کتب کے قدیم نسخے ایک شہر میں لا کر جمع کیے جا رہے ہیں ۔پورے علاقے میں تجارت کا سب سے بڑا مرکز یہاں پر ہے ۔باہر سے آنے والا مسافر عالی شان مساجد کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے تو ساتھ ہی نمازیوں کی پوشاکیں ایسی کہ منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے ۔سونے کی تجارت جتنی یہاں دیکھنے میں آرہی ہیں ، مسافر نے شرق و غرب کے کسی علاقے میں نہیں دیکھی ۔۔اس شہر کے ایک بادشاہ نے آج سے 200 سال پہلے سفرِ حج کیا تھا تو تو اس کے ہمراہ 60 ہزار افراد تھے جن کی خدمت کے لیے 12 ہزار غلام تھے ۔بادشاہ کے زادِ راہ میں 1 لاکھ 80 ہزار کلو سونا تھا ، یہ عظیم الشان قافلہ جہاں جہاں سے گزرتا گیا ، وہاں دولت کی ریل پیل ہوگئی ۔کوئی غریب نہ رہا ۔قاہرہ ، مکہ اور مدینہ میں سونا اتنا زیادہ ہو گیا کہ اس کی قیمت ہی گر گئی ۔ کوئی بستی ایسی نہ رہی جہاں اللہ کا گھر نہ ہو ۔کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ہر جمعہ کے دن ایک مسجد کی تعمیر کروائی ، بعض ایسی شاندار کہ آج بھی قائم و دائم ۔شہر کے لوگوں کا رہن سہن ایسا پُر شکوہ کہ اندھیروں میں ڈوبے یورپ کے لوگ اس شہر تک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں لیکن یہاں اہلِ توحید کے سوا سب کا داخلہ ممنوع ہے ۔600 سال تک اسکی ریتلی مٹی پر کسی مشرک کا قدم نہیں پڑا ۔یہ ایک ایسا شہر ہے کہ آج بھی اسکا نام ناقابلِ پہنچ کا استعارہ ہے ۔آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ برِ صغیر پاک و ہند کا کوئی عظیم شہر ہے ، یا شاید جزیرۃ العرب کا کوئی حصہ ہوگا ، نہیں تو شاید ثمر قند و بخارہ کی بات ہورہی ہے ۔ جی نہیں !! یہ شہر مغربی افریقہ میں عظیم الشان صحارا کے وسط میں واقع ایک شہر کا نام ہے جسے" ٹمبکٹو "کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو لوگ اس نام سے واقف ہیں ، ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ ٹمبکٹو کسی دیو مالائی جگہ کا نام نہیں ، بلکہ موجودہ مالی کا ایک شہر ہے ۔ افریقہ جس کا نام سنتے ہی ذہن میں غربت ، بھوک او ربیماری کا تصور آجاتا ہے ۔ اس کی تاریخ میں ایک ایسے شہر کا وجود ایک عمرانیاتی معجزے سے کم نہیں

لیکن یہ اسلام کا ہی طرہِ امتیاز ہے کہ یہ جب کسی قوم کی زندگیوںمیں داخل ہوتا ہے تو صدیوں کے غلام آزادی کی فضا میں سانس لینے لگتے ہیں۔ جہالت کی تاریکیوں سے روشنی کے علمبردار نکلتے ہیں ۔ رنگ و نسل کے سب پردے گر جاتے ہیں ۔ شہروں میں گلستاں اُگ جاتے ہیں اور بے آب و گیاہ زمین سے علم کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔

ٹمبکٹو شہر کی بنیاد گیارہویں صدی عیسوی میں پڑی جب توارگ چرواہوں نے گرمیوں میں اپنے جانوروں کو بیماری سے بچانے کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا۔یہاں کی آب و ہوا صحارا کے باقی علاقوں کی نسبت کافی اچھی تھی اور میٹھے پانی کے کافی کنویں بھی موجود تھے ۔آہستہ آہستہ یہ شہر تجارتی قافلوں کے لیے مرکزی اہمیت اختیار کرگیا ۔مالی کا علاقہ سونے کی کانوں کی وجہ سےہمیشہ سے مشہور رہا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹمبکٹو پورے شمالی اور مغربی افریقہ میں سونے کی تجارت کا مرکز بن گیا۔اسلام اس خطے میں آٹھویں صدی سے ہی پہنچ چکا تھا، ٹمبکٹو میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کئی مساجد تعمیر ہوگئیں۔

۱۳۲۵میں سلطنت ِ مالی کا عظیم بادشاہ مانسہ موسیٰ اوّل سفرِ حج سے واپس آیا تو اس نے ٹمبکٹو میں پڑاوَ کیا ۔اپنے اس سفر کے دوران موسیٰ اوّل نے ہر شہر میں ایک مسجد تعمیر کروائی ۔ٹمبکٹو پہنچ کر اس نے اپنے چیف انجینئر ابو اسحاق الایحلی اندلسی کو پورے مغربی افریقہ کی سب سے بڑی مسجد بنانے کی ہدایت کی اور اسکا معاوضہ 200 کلو سونا مقرر کیا ۔چناچہ بادشاہ کے اس حکم کے مطابق مسجد الکبیر کی تعمیر کی گئی جو کہ پچھلے سات سو سال سے اپنے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہے اور آج بھی ٹمبکٹو کی مرکزی مسجد کی حیثیت رکھتی ہے۔موسیٰ اوّل کے اس سفرِحج کے بعد مالی اور ٹمبکٹو دونوں کو اسلامی دنیا میں کافی شہرت حاصل ہوئی ۔مسجد الکبیر کے علاوہ بادشا نے ایک بہت بڑی جامعہ بھی قائم کی جس کو سنکورے مدرسہ یا جامعہ ٹمبکٹو کہا جاتا ہے۔چودہویں سے سولہویں صدی تک جامعہ ٹمبکٹو مسلم دنیا کی بہترین جامعہ مانی جاتی تھی جس کے فارغ التحصیل علما تیونس، قاہرہ، مراکش اور موریتانیا میں پڑھانے جاتے تھے ۔یہاں کا معیار اتنا اونچا تھا کہ بعض اوقات عرب ممالک سے پڑھ کر آنے والے اساتذہ کو بھی منتخب نہیں کیا جاتا تھا۔ٹمبکٹو کی سنکورے لائبریری اسکندریہ کی لائبریری کے بعد افریقہ کی دوسری بڑی لائبریری تھی جس میں سات لاکھ سے زائد کتابیں تھیں ۔سلطنتِ مالی کی سرکاری زبان عربی تھی اور جامعہ ٹمبکٹو میں بھی عربی میں ہی تعلیم دی جاتی تھی ۔اسکے نصاب میں تفسیرِ قرآن ، حدیث، فقہ، اصول، منطق اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ریاضی، کیمیا، فزکس، فلکیات کے علاوہ تجارت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔یقیناً اسکا موازنہ آج کے دور کی کسی بھی یونیورسٹی سے کیا جا سکتا ہے ۔

قرونِ وسطی کے عالمِ اسلام میں سلطنتِ مالی اور ٹمبکٹو کو خصوصی مقام حاصل ہے ۔یہاں کے حکمرانوں نے نا صرف باقی دنیا کے مسلمانوں کی معاشی مدد کی بلکہ انہوں نے تمام عالمِ اسلام سے طلبہ کو خوش آمدید کہا ۔جامعہ ٹمبکٹو میں 25 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم تھے جبکہ اس کے علاوہ ٹمبکٹو میں 150 کے قریب چھوٹے مدارس بھی قائم تھے جہاں علما اپنے طلبہ کو کسی خاص شعبہ میں تخصیص کرواتے تھے۔ٹمبکٹو کے کتب خانوں میں اسلامی دنیا کی بیش بہا قیمتی کتابیں موجود تھیں ۔ابنِ بطوط اور حسن الوزن جیسے مشور سیاحوں نے اس اس علاقے کا سفر کیا اور یہاں کے علمی ماحول اور عربی زبان سے محبت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔الوزن لکھتے ہیں کہ اس دور میں کتاب کی سب سے زیادہ قیمت ٹمبکٹو میں ملتی تھی اس لیے پوری مسلم دنیا سے لوگ یہاں کتابیں فروخت کرنے آیا کرتے تھے۔سنکورے لائبریری کے علاوہ بھی ٹمبکٹو میں کئی لوگوں کے ذاتی کتب خانے بھی موجود تھے جہاں کافی نایاب کتب موجود تھیں۔

سولہویں صدی کے اختتام سے لیکر اٹھارویں صدی کے وسط تک ٹمبکٹو پر مراکش کی جانب سے مور حملہ آوروں نے کئی حملے کیے اور ٹمبکٹو کا امن تباہ ہوگیا ۔حکومتوں کی بار بار تبدیلی کا اثر یہاں یہاں کے مدارس اور جمعیت پر ہوا۔کئی بڑے بڑے علما کو قتل یا بے دخل کر دیا گیا جس وجہ سے علم اور روشنی کا یہ سورج آہستہ آہتہ غروب ہوگیا۔

۱۸۳۷میں پہلی مرتبہ ایک غیر مسلم رین کائیل اس شہر میں داخل ہوا تو اس کی امارت کی حالتِ زر دیکھ کر کافی مایوس ہوا کیونکہ یورپ کی نظر میں ٹمبکٹو ایک سونے کی چڑیا کا نام تھا جس تک وہ کبھی نہ پہنچ سکے تھے اور شہر کی یہ حالت اُس کے لیے غیر متوقع تھی ۔اس کے باوجود وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ شہر کہ تمام تر آبادی حافظِ قرآن تھی۔ٹمبکٹو کا سنہری دور بے شک گزر چکا تھا مگر تقوی اور علم دوستی کی فضا تب بھی قائم تھی

آج کا ٹمبکٹو اپنے تمام تر پُر شکوہ ماضی، سحر انگیز عمارات اور علم دوست آبادی کے ساتھ بد امنی ، غربت اور بدحالی کا شکار ہے ۔شمالی مالی میں انصار الدین اور آزاواد اسلامک موومنٹ کے مجاہدین شریعہ کے نفاذ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں جبکہ فرانس بھی اپنے تمام تر اسلحہ اور تکبر کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہوچکا ہے ۔جس طرح یہ خطہ چھ صدیوں تک مشرکین کے ناپاک قدموں سے دور رہا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو اہلِ شرک کے تسلط سے محفوظ رکھے اور اس کے مکینوں کو ایک بار پھر شریعتِ اسلامی سے بہرہ مند فرمائے ۔آمین

You can join me on Face book also.

http://www.facebook.com/pages/DR-Furqan-Ali-Khan/251362514875967?ref=hl
Regard.
Furqan Ali khan.
03.02.2013

No comments:

Post a Comment

thank you